Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

پارٹی بہت شاندار تھی شہر کی تمام کریم وہاں موجود تھی اور مسز عابدی نے ان لوگوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔ صباحت نے بھی اپنا رویہ نارمل رکھا تھا  بلو کلر کی سلک کی ساڑھی میں نک سک سے تیار خوبصورت لگ رہی تھیں  اس کے پاپا بھی گرے کوٹ سوٹ میں بہت پروقار اور ہینڈسم لگ رہے تھے۔ وہ انکل عابدی آنٹی اور ان کی دونوں شادی شدہ بیٹیوں سے علیک سلیک کے بعد ایک چیئر پر بیٹھ گئی تھی۔

ویٹر کولڈ ڈرنک سرو کرکے گیا تھا وہ سِپ لیتے ہوئے ممی اور پاپا کو دیکھ رہی تھی جو ساتھ ساتھ تھے آج اور پاپا ان کو سب سے ملوا رہے تھے  ممی کے چہرے کی مسکراہٹ میں بڑی آسودگی  طمانیت اور فخر تھا  انہوں نے آگے بڑھ کر پاپا کے بازو میں اپنا بازو ڈال لیا تھا  لحظہ بھر کر اس نے پاپا کے ماتھے پر شکن ابھرتی دیکھی تھی اور اس وقت کچھ بے تکلف دوست ان کے قریب آ گئے تھے۔
(جاری ہے)

صباحت نے بڑی فاتحانہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا  جیسے بتانا چاہ رہی ہو کہ دیکھو  تمہاری ماں کی جگہ لے لی ہے میں نے۔ ان کے اس انداز سے اس کی بہت عجیب سی کیفیت ہوئی تھی۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے گلاس ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔

”ممی کیا سوچتی ہیں میں ان سے حسد کرتی ہوں؟ انہوں نے میری طرف ایسی نظروں سے کیوں دیکھا ہے؟ کیا جتانا چاہتی ہیں وہ؟ شاید… شاید وہ سمجھتی ہیں کہ میں ان کے اور پاپا کے درمیان رشتہ قائم نہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔
“ صباحت کی نفرت بھری نظر اس کے دل کو اس طرح پیوست ہوئی کہ تکلیف کے باعث یہ بھی بھول گئی وہ کسی گوشے میں نہیں بیٹھی ہے وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئی تھی  تب ہی وہ فلش کی زد میں آئی تھی اور اس نے چونک کر حواسوں میں آنے اور اٹھ کر وہاں تک جانے کے دوران وہ متعدد بار فلش کی زد میں آئی تھی۔

”کون ہیں آپ؟“ آپ نے جرأت کیسے کی میری تصویر لینے کی؟“

###

اب کے برس کچھ ایسی تدبیر کرتے ہیں

مل کے ایک شہر محبت تعمیر کرتے ہیں

کچھ خواب یقین کی سرحد پر آ پہنچے

آنکھ کھلنے سے پہلے ان کی تعبیر کرتے ہیں

وہ بے حد طیش بھرے لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی اور ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اس سے کیمرہ چھیننا چاہا تھا جو اس شخص نے نہایت سرعت سے دائیں سے بائیں ہاتھ میں منتقل کر لیا تھا اس کے چہرے پر بھرپور دلچسپ مسکراہٹ تھی۔

”مجھے یقین نہیں آ رہا؟ آپ انسان ہیں…؟“ تھری پیس سوٹ میں ملبوس اس شخص کی پرشوق نظریں پری کے غصے سے سرخ چہرے پر چسپاں تھیں۔

”میں تو سمجھا تھا کوئی اپسرا راستہ بھٹک کر یہاں آ گئی ہے۔“ وہ اس سے شوخی سے مخاطب ہوا تھا۔

”تم کون ہو؟ آپ کو جرأت کیسے ہوئی میری فوٹو لینے کی؟“ مقابل کی نظروں میں جتنا اشتیاق و دلچسپی پنہاں تھی  پری کی نظروں میں اتنی ہی ناپسندیدگی اور غصہ و طیش موجزن تھا  اس کی موتیا جیسی رنگت میں سرخیاں چمک اٹھی تھیں وہ بہت سخت نظروں سے اس کو گھور رہی تھی۔
گویا اس کا کام تمام کرنے کا ارادہ رکھتی ہو۔

یہ شام‘ یہ ملاقات کا سماں یاد رہے گا

یہ پل‘ یہ وقت‘ یہ سفر یاد رہے گا

اس نے برجستہ شعر گنگنایا تھا اور اسی وقت مسز عابدی اور ان کی بیٹی نائلہ ان کے قریب آ گئی تھیں۔

”شیری! ان سے ملئے؟“ نائلہ نے پری کا ہاتھ بہت محبت سے تھام کر اس سے پوچھا۔

محبت کا اب بدل جانا بھی مشکل ہے

تمہیں کھونا بھی مشکل ہے‘ تمہیں پانا بھی مشکل ہے

اس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پھر برجستگی کا مظاہرہ کیا تھا اور نائلہ کھکھلا کر ہنس پڑی تھی۔

”مائنڈ مت کرنا پارس! یہ میرا برادر بے حد جولی ہے اس کی شرارتوں سے ہم سب ہی انجوائے کرتے ہیں۔“

”مجھے فیل ہور ہا ہے پری کو آپ نے فوراً ہی اپنی شرارتوں کا ہدف بنا ڈالا ہے  یہ اچھی بات نہیں ہے شیری۔“ مسز عابدی جہاندیدہ عورت تھیں وہ پری کے چہرے پر پھیلی ناگواری اور خاموشی سے بھانپ گئی تھیں کہ ان کے بیٹے کی بے تکلفی اس کو برہم کر گئی ہے۔

”میں نے کیا کہا ہے مما! یہ جس انداز میں دنیا سے لاتعلق بیٹھی تھیں اس سے تو یہی گمان ہو رہا تھا کہ یہ رئیلی پری ہیں اور غلطی سے راستہ بھٹک کر ہماری پارٹی میں آ گئی ہیں۔“

”سوری پری! آپ برا نہیں مانیں  آپ تو رئیلی پری لگتی ہیں  اب میرا بھائی آپ کو دیکھ کر ریلاٹی سمجھ بیٹھا ہے تو یہ بے قصور ہے۔ پلیز معاف کر دیں اس کو۔“ نائلہ اس کے چہرے کے تاثرات بھانپتے ہوئے بولی۔

”اگر آپ کہیں تو میں مرغا بن جاؤں یہاں سب کے سامنے؟“ وہ چہرے پر خوف کے تاثر لاتے ہوئے بولا۔

”نہیں شکریہ! آپ میری تصویریں مجھے دے دیں۔“

اس کے اس پر مزاح لہجہ کا پری پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا  مسز عابدی اور نائلہ کی شوخ مسکراہٹیں اس کی سنجیدگی دیکھ کر کچھ بھیگی پڑی گئی تھیں  ایسا ہی تاثر شیری کے چہرے پر بھی تھا۔

لمحے بھر کو وہ تینوں کچھ کہہ نہ سکے پھر مسز عابدی نے پری کو اپنے بازو کے گھیرے میں لیتے ہوئے چاشنی بھرے لہجے میں کہا۔

”نائلہ اور نورین کی طرح آپ بھی میری بیٹی ہیں  بے فکر رہیں آپ کی تصویریں میں آپ کو دوں گی  آپ کے پاپا فیاض بھائی اور عابدی کی ریلیشن بھائیوں سے بھی بڑھ کر ہے  وہ کلوز فرینڈ بھی ہیں اور بزنس پارٹنرز بھی۔ عابدی اپنے بھائیوں پر بھروسہ نہیں کرتے مگر فیاض بھائی پر تو ان کا اس قدر بھروسہ ہے کہ وہ آنکھ بند کرکے ان پر اعتماد کرتے ہیں۔

”اوہ! یہ انکل فیاض کی بیٹی ہیں؟“ شیری کے انداز میں ازسرنو دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔

”آپ سے مل کر بہت اچھا لگا مس پری!“ اس نے آگے بڑھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔

”آداب!“ بے حد شائستگی سے اس نے کہا اور اس کے بڑھ ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کر دیا۔

”شیری! ڈیڈی بلا رہے ہیں۔“ نورین نے آکر اطلاع دی تو وہ مسکراتا ہوا چلا گیا۔

###

ان دونوں کے قہقہوں میں بڑی سفاکی تھی  عادلہ کو بے حد گھبراہٹ ہوئی تو وہ اسی لمحے اٹھ کھڑی ہوئی۔

”چلو عائزہ! بہت دیر ہو گئی ہے مما پاپا آ گئے ہوں گے۔“ اس نے سخت لجے میں کہا۔

”او کم آن عادلہ! وہ دونوں مڈ نائٹ آئیں گے اور ابھی ٹائم ہی کیا ہوا ہے  تم بیٹھو ہم ان کے آنے سے پہلے چلے جائیں گے  آرام سے بیٹھو اوکے۔
“ عائزہ نے اس کے لہجے کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے قدرے بے پروائی سے کہا۔

”مما  پپا تو دیر سے آئیں گے مگر دادی جان کو جانتی ہو تم اگر مزید دیر ہوئی تو کتنی سختی سے وہ ایک ایک لمحے کا حساب لیں گی کہ کہاں اور کس طرح گزارا ہے؟“

”چھوڑو یار! جو ہوگا دیکھا جائے گا  تم بیٹھ جاؤ۔“ جھنجلا کر کہتے ہوئے اس نے خود ہی ہاتھ بڑھا کر اسے دھکیلنے کے انداز میں صوفے پر کھینچ لیا۔

”آپ کیوں اتنا ٹینس ہو رہی ہیں  خود ڈراپ کر آؤں گا آپ لوگوں کو۔“ راحیل نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے تسلی دی تھی۔

”اوہ! شاید تم طغرل کے مرڈر کا سن کر کنفیوژ ہو۔“

”میں نہیں چاہتی اس کو کچھ ہو۔“

”اس کو تمہاری بالکل پروا نہیں ہے اس کے باوجود بھی تم اس مغرور انسان کیلئے پاگل ہو رہی ہو۔“

”تم کچھ بھی کہو  مجھے کچھ نہیں سننا ہے  طغرل کے متعلق۔
بس تم چلو یہاں سے رات ہو چکی ہے۔“ اس نے عائزہ کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔

”اوکے گرلز! تم لوگ فیصلہ کر لو  رکنا ہے یا جانا ہے؟ میں اتنی دیر میں چینج کرکے آتا ہوں۔“ راحیل نے مسکراتے ہوئے کہا اور اٹھ کر دوسرے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

”کیا مصیبت ہے تم کو؟ ابھی آئے دیر ہی کتنی ہوئی ہے جو تم نے جانے جانے کے رٹ لگا رکھی ہے؟“ راحیل کے وہاں سے جاتے ہی وہ غصے سے اس سے گویا ہوئی۔

”تم کو خوف محسوس نہیں ہو رہا ہے یہاں پر؟“

”کیسا خوف؟ ہم گھر بیٹھے ہیں کسی بھوت بنگلے میں نہیں  جو تم اس قدر خوف زدہ ہو رہی ہو۔“

”مجھے سچ مچ ڈر لگ رہا ہے یہاں۔“ وہ قدرے اس کے قریب ہو کر سرگوشی کے انداز میں گویا ہوئی۔

”تم کو کسی کے کراہنے کی ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دے رہی ہیں؟ غور سے سنو۔“

”بکواس بند کرو  جب سے تم آئی ہو تمہارا منہ ہی سیدھا نہیں ہو رہا ہے پہلے راستے بھر بک بک کرتی آئی ہو اور اب یہاں آ کر یہ فضول بکواس شروع کر دی ہے۔
“ عائزہ کا موڈ بری طرح بگڑنے لگا تھا۔

”تم زبان قابو میں رکھو میں یہاں نہیں رکوں گی  تم نہیں جاؤ گی تو میں تنہا ہی چلی جاؤں گی۔“ وہ اٹھتے ہوئے اٹل لہجے میں بولی۔

###

ڈنر ختم ہو چکا تھا اور اب ہال میں محفل موسیقی کی تیاریاں اختتام پر تھیں  مہمان ڈنر کے بعد کافی اور آئس کریم سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ پری وہاں سے اٹھ کر اپنے پاپا کو دیکھنے کیلئے لان کے اس حصے کی طرف بڑھ رہی تھی جہاں فیاض صاحب اور عابدی صاحب کچھ دوستوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے  وہ یہاں شدت سے بوریت محسوس کر رہی تھی اور گھر جانا چاہتی تھی۔
وہ ان کی طرف بڑھ رہی تھی جب شیری اس کی راہ میں مائل ہوا تھا اور سنجیدگی سے گویا ہوا۔

”ایم سوری  وہ سب مذاق تھا  مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ آپ انکل فیاض کی بیٹی ہیں۔“

”جی اگر آپ کے علم میں ہوتا کہ میں انکل فیاض کی بیٹی ہوں تو پھر آپ میری تصویریں نہیں بناتے؟“ اس کے سنجیدہ لہجے میں ایک کرختگی بھرا طنز تھا۔

”یہ کیسے مینرز ہیں آپ کے شیری صاحب! بغیر اجازت آپ کسی کی بھی فوٹو کھینچ سکتے ہیں یہ تو سراسر خود سری ہے آپ کی۔

”دراصل میں ہر کسی کی تصویر نہیں کھینچتا۔“ اس نے بہت ایزی انداز میں کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اس کی طرف گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”بیوٹی کسی بھی روپ میں ہو  میرا کریز ہے  پیشن ہے میرا میں جہاں بھی حسن دیکھتا ہوں  خوبصورتی دیکھتا ہوں  فریز ہو جاتا ہوں  حواسوں میں نہیں رہتا۔“ وہ کہتا ہوا بے خود سا اس کے قریب آ گیا تھا اس کے انداز میں ایک بے ساختگی تھی  نگاہوں میں کچھ ایسی ہی آنچ تھی کہ پری کچھ سراسیمہ سی ہو کر دور ہٹ گئی تھی۔

”آپ کو دیکھا اور…“

”کیا باتیں ہو رہی ہیں ذرا ہم بھی تو سنیں۔“ صباحت جو کب سے شیری کو پری کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں اس وقت موقع پاتے ہی قریب آ گئی تھیں۔

”اوہ آنٹی! کچھ خاص نہیں۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔

”کوئی تو خاص بات ہو گی  جو آپ دونوں یہاں مہمانوں سے کافی فاصلے پر کھڑے ہو کر باتیں کر رہے ہیں۔
“ وہ مسکرا کر کہہ رہی تھیں بے حد شگفتہ لہجے میں۔ پری کی رنگت پھیکی پڑنے لگی تھی۔ وہ صباحت کی ذہنیت و مزاج کو اچھی طرح سمجھتی تھی  وہ اب اس بات کو کیا کیا معنی دیں گی اس سے وہ سوچ کر ہی خوف زدہ ہونے لگی تھی۔

”کچھ خاص نہیں آنٹی! دراصل میں نے بغیر اجازت آپ کی بیٹی کی تصویر لے لی تھی  جس پر یہ بے حد خفا ہوئی ہیں سو میں ان سے سوری کر رہا تھا۔

”تم جانتے ہو پری میری بیٹی نہیں ہے  یہ فیاض کی پہلی بیوی سے ہیں۔ میں آپ کو اپنی بیٹیوں سے ملواؤں گی  بہت پیاری ہیں وہ۔“ ان کے جتانے والے انداز پر وہ دم بخود کھڑی رہ گئی تھی۔

”بہت دل لگ گیا ہے یہاں  باہر شوفر ویٹ کر رہا ہے ہم لیٹ نائٹ آئیں گے۔“ وہ پری سے مخاطب ہوئی تھیں۔

”ابھی تو میوزیکل شو باقی ہے آپ کیوں ان کو جانے پر فورس کر رہی ہیں؟“ اس پر ان کے سوتیلے سگے کا کوئی فرق نہیں پڑا تھا  اس کی واپسی کا سن کر وہ مضطرب انداز میں گویا ہوا تھا۔

”ارے بیٹا! میں کہاں مجبور کر رہی ہوں  یہ تو خود جانا چاہ رہی ہیں۔ دراصل سخت آدم بے زار لڑکی ہے یہ۔“ شیری کے لحاظ میں انہوں نے اپنے لہجے کو خاصا مہذبانہ رکھا تھا۔

”آدم زاد ہو کر آدم زادوں سے بے زاری! میں نہیں جانتا؟“

”دادی جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے  اس لئے مجھے جانا ہے اور ممی کی یہ بات درست ہے مجھے ہنگاموں میں وحشت ہوتی ہے۔
پارٹنر اٹینڈ نہیں کرتی ہوں۔“ اس کا لہجہ پر اعتماد سنجیدہ تھا۔

”مجھے کچھ نہیں پتا  میں مام کو بلا کر لاتا ہوں میرے روکنے پر آپ نہیں رکیں گی  یہ میں سمجھ چکا ہوں مام آپ کو جانے نہیں دیں گی۔“ وہ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا تھا۔

”وا! ایسا کیا جادو کرتی ہو ان بھولے بھالے نوجوانوں پر  جو تم کو دیکھتے ہی دیوانے ہو جاتے ہیں۔
وہاں طغرل کو پھانس رکھا ہے اور یہاں آتے ہی عابدی بھائی کے اکلوتے بیٹے کو الو بنا لیا ہے پھر بنی پھرتی ہو بڑی پاکباز اور با حیاء ہونہہ…“ شیری کے جاتے ہی وہ لفظ جما جما کر کہہ رہی تھیں اسے  مخصوص نفرت و حقارت بھرے لہجے میں۔

”ممی! آپ اچھی طرح جانتی ہیں مجھے کہ…“

”ہاں ہاں خوب جاتی ہوں تب ہی کہہ رہی ہوں۔ اب فوراً دفع ہو جاؤ یہاں سے اور غلطی بھی پیچھے مرکر مت دیکھنا ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔
چلو تیز تیز قدم بڑھاؤ۔“ ان کی نگاہیں گاہے بگاہے شیری کی طرف اٹھ رہی تھیں جو مسز عابدی کی طرف بڑھ رہا تھا اور جیسے ہی وہ ان کے قریب پہنچا تو اسی لمحے انہوں نے پری کو وہاں سے جانے کا حکم دیا تھا  پری خود وہاں سے جانا چاہ رہی تھی۔

ان کا حکم ملتے ہی وہ وہاں سے نکل گئی تھی اور جس وقت شیری اپنی ماں کو وہاں لایا اسی اثناء میں پری کی کار روانہ بھی ہو گئی تھی۔
صباحت کے لبوں پر پرسکون مسکراہٹ تھی جب کہ پری کو وہاں نہ پاکر شیری خاصا ڈسٹرب ہوا تھا۔

”آنٹی! پری کہاں ہیں؟“

”چلی گئی ہیں وہ۔“ ان کے انداز میں شرمندگی تھی۔

”اتنی جلدی کیوں چلی گئی پری مسز فیاض! شیری مجھے لے کر آئے ہیں کہ میں ان کو نہ جانے دوں  ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔“ وہ مسکراتے ہوئے نرمی سے کہہ رہی تھیں۔

”اب میں کیا بتاؤں آپ کو بھابی! میں تو نہیں چاہ رہی تھی وہ جائیں۔ مگر میری بدقسمتی ہے سوتیلی ماں ہوں  سگی ہوتی تو نہیں جانے دیتی  میری بات وہ سنتی کب ہے؟“ وہ خاصے مغموم لہجے میں کہہ رہی تھیں۔

”میں نے کہا تھا آپ سے مل کر جائے  یہ ایٹی کیٹس کے خلاف ہے کہ اس طرح جایا جائے  مگر سوتیلی ہوں نا…“

”ڈونٹ وری مسز فیاض! آپ دکھی مت ہوں  وہ ابھی کم عمر ہے باشعور نہیں ہے عقل آتے ہی بے حد عزت کرے گی آپ کی۔“

   1
0 Comments